بین الاقوامی

ترکی-شام میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 26 ہزار سے تجاوز کر گئی، اردگان کا بار بار غلطی تسلیم کرنے کی وجہ کیا ہے؟

ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 26 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ متعدد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ ترکی میں 7.8 شدت کے زلزلے اور کئی آفٹر شاکس آنے کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں، بشمول کہرامانماراس، ہاتائے، غازیانتپ اور نوردگی میں کثیر المنزلہ عمارتیں، مکانات، مالز اور دفاتر مٹی اور ملبے میں ڈھل گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ مارٹن گریفتھس نے ہفتے کے روز جنوبی ترکی اور شمال مغربی شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو “100 سالوں میں خطے میں آنے والا بدترین زلزلہ” قرار دیا۔ ہفتے کو امدادی کارروائیاں جاری رہیں اور زلزلے کے سو گھنٹے بعد جمعے کو ملبے سے ایک درجن افراد کو زندہ نکال لیا گیا۔ میڈیا کے مطابق، شام کے صدر بشار اسد اور ان کی اہلیہ اسماء نے حلب یونیورسٹی ہسپتال میں زندہ بچ جانے والوں کی عیادت کی۔ تباہی کے بعد سے ملک کے کسی متاثرہ علاقے میں رہنما کی یہ پہلی عوامی نمائش تھی۔ اقوام متحدہ، شامی ہلال احمر اور بین الاقوامی ریڈ کراس کی مدد سے ان لوگوں تک امداد پہنچائی جائے گی جنہیں اس کی ضرورت ہے۔ ترکی کے وزیر برائے ماحولیات اور شہری منصوبہ بندی مرات کوروم کے مطابق ترکی میں تقریباً 12000 عمارتیں یا تو منہدم ہو چکی ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ ترکی کے نائب صدر فوات اوکتے نے کہا کہ دس لاکھ سے زائد افراد کو عارضی پناہ گاہوں میں رکھا گیا ہے۔ ترکی میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کے حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ ملک کی کمزور عمارتی پالیسیاں اور جدید تعمیراتی ضوابط پر عمل درآمد میں ناکامی بھی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا باعث بنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رئیل اسٹیٹ میں تیزی ان علاقوں میں آئی جو زلزلہ کے لحاظ سے حساس تھے لیکن یہاں جدید تعمیراتی قوانین کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ ارضیات اور انجینئرنگ کے ماہرین طویل عرصے سے انتباہ دے رہے ہیں، اور اس ہفتے کے تباہ کن زلزلوں کے بعد پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ میں سستی کی تازہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ زلزلے سے ترکی اور شام میں ہزاروں عمارتیں تباہ اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ “ہمارے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ریلیف اور ریسکیو ٹیم ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ امداد اور بچاؤ کی کارروائیاں اتنی تیز نہیں ہیں جتنی ہم چاہیں گے۔ اردگان دوبارہ انتخابات کے لیے کھڑے ہیں۔ ان کے مخالف نے زلزلے کے بعد امدادی اور بچاؤ کے کاموں میں سستی کے معاملے کو ان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔زلزلے سے پہلے بھی اقتدار میں واپسی اردگان کے لیے سب سے مشکل چیلنج تھا۔