ازواجِ مطہراتؓ خواتین کی دینی درسگاہیں تھیں
قاری نسیم احمدمنگلوری
تاریخ شاہدہے کہ جب جب ضرورت پڑی عاشقان مصطفی ﷺ نے آپ ﷺ کی عزت وناموس کی خاطراپنی جانوں کی بازی لگادی۔ تاریخ تویہاں تک شہادت دیتی ہے کہ حضوراکرم ﷺ کاجنگ احدمیں ایک دانت شہیدہواحضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سارے دانت توڑدیئے،اللہ اللہ کیسا عشق تھا۔
عشقِ سرکارمیں جولوگ جیاکرتے ہیں
ان کی تعظیم فرشتے بھی کیاکرتے ہیں
(قاری نسیم منگلوری)
حضرت نبی کریم رﷺ کاایک دانت کیاشہیدہوا،دیوانے نے یہ خیال کرکے کہ نہ معلوم کون سادانت شہیدہوا،یکے بعددیگرے سارے ہی دانت توڑدیئے،جوعشق کے اس مقام پرفائز ہوئے۔سوچئے توسہی! وہ دشمن رسولﷺ کوکیسے آزادچھوڑسکتے ہیں۔
آج بھی ہوجوبراہیم ساایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِگلستاں پیدا
(علامہ اقبالؒ )
حیف صدحیف کہ آج ہما رے پا س اتنا وقت ہی نہیں کہ ہم آقا ﷺکی عزت و ناموس کے لئے کچھ کرگزرنا تودور، اس جیسے اہم اورحساس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر نا تودور، اس موضوع پر گفتگوبھی نہیں کرتے۔ یہ ہماری بے حسی نہیں تو اورکیاہے، دین سے دوری نہیں تو کیاہے۔اسوۂ حسنہ سے نفرت نہیں تو اورکیاہے۔آج تاریخ پھرسے اپنے آپ کودوہرارہی ہے، آج پھر سے کچھ ملعون صفت انسانوں نے آقاﷺ کی عزت وناموس پرانگلیاں اٹھانا شروع کردی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ موضوع بحث حضور اکرمﷺکی شادیاں ہیں۔حضور اکرمﷺ کی شادیوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں کی حضور اکرمﷺنے گیارہ شادیاں کی ہیں۔ یہ بتانا اورمان لینا بظاہر بڑا ہی سہل اورآسان ہے۔جبکہ ان سب کے پس پشت اللہ رب العزت کی بڑی مصلحتیں اورحکمتیں پوشیدہ ہیں۔جنھیں کوئی بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتا،جوکہ ہرکس وناکس کی سمجھ سے بالاتربھی ہے۔
اسلامی تاریخ اور احادیث کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے عالم شبا ب میں ،25 سال کی عمر میں ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی کی۔جس وقت آقاﷺنے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی، اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی، اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔جبکہ یہ بھی تلخ خقیقت ہے کہ اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالمِ شباب کے 25 سال تک ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پرقطعی اکتفا نہیں کرتا،مگر 50 سال کی عمر تک آپ ﷺنے ایک بیوی پر ہی قناعت کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفا ت کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کئے۔ آج اگر نوجوانوں سے سوال کیا جائے کہ ہے کوئی نوجوان! جو 40 سال کی بیوہ سے شا دی کرے،تولاکھوں میں کوئی ایک آدھ بندۂ مومن نکلے گا،بلکہ اکثرکا جواب نفی میں ہی ملے گا۔ لبوں پہ خاموشی کے تالے لگ جائیں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو گیارہ شادیاں کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بیوگان سے شادی کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جنگ اْحد میں ستر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین شہید ہوئے۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا ،حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپﷺ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے بیوگان سے شادیاں کیں، دوسروں کو ترغیب دینے کیلئے آقا ﷺنے خودپریکٹیکل کرکے دکھایا،جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے ۔یتیموں کودست شفقت مل گیا،بیواؤں کوسہارامل گیا۔
اسی طرح ہم جب تاریخ عرب کے صفحات الٹتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ عربو ں کا اس زمانے میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا، اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف جنگ کرناتسلیم کیاجاتاتھا،عربی باشندے اسے اپنی توہین سمجھتے تھے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجر ت کر گئیں ، وہا ں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکل سے گھر پہنچیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہِ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سر دار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کراٍ دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
تاریخ خیبرکے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ا ن کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا۔ اسی طر ح میمونہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو۔
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے جس وقت نکاح کیا اس وقت وہاں مبتنی کی رسم بڑے عروج پرتھی۔ اسلام تو آیاہی تھارسم ورواج کومٹانے کے لئے۔ان کے خاتمہ کے لئے ،حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے نکاح مبتنی کی اس رسم کو توڑنے کے لئے کیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبتنی کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے ہوا۔ منا سبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلا ق دے دی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ مبتنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔
اس میں شک اور شبہ کی قطعی گنجائش نہیں کہ علوم اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جما عت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرانا مشکل تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے۔ آپ نے حکماً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہماکو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بہت ذہین اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوتا۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 368 ہے۔
ان حالا ت وواقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ ازدواجِ مطہراتؓ کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں ،کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے مکمل اورناقابل نسخ تھی ،مگر ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ لگاپانامشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔بہر کیف آج ضرورت ہے کہ ہم آقاﷺکی زندگی کے اس طرح کے کچھ نکات یاد رکھیں،یادکریں، تاکہ موقع بموقع معترضین کو آئینہ دکھایا جاسکے، اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پراگر حملہ کرے تو آپ ﷺ کی عزت وناموس کادفاع کیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے والا بنائے۔ (آمین )
عقل ہے تیری سپرعشق ہے شمشیرتری
میرے دورویش خلافت ہے جہاں گر تری
کی محمدﷺسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
(علامہ اقبالؒ )
از: قاری نسیم احمدمنگلوری
(مہتمم دارالعلوم ملامحمود،منگلورضلع ہری دواراتراکھنڈ)